وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور یہ دنیاوی زندگی لہو و لعب (٣٩) کے سوا کچھ نہیں ہے اور بے شک آخرت کا گھر ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، کاش کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا
اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت کے احوال کی خبر دیتا ہے اور اس ضمن میں دنیا سے بے رغبتی رکھنے کی ترغیب اور آخرت کا شوق پیدا کرتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾ ” اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی“ یعنی اس دنیاوی زندگی کی حقیقت ﴿إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ﴾ ” مگر کھیل کود۔“ جس کی بنا پر دل غافل اور بدن کھیل میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیب و زینت اور ان لذات و شہوات سے لبریز کردیا ہے جو دلوں کو کھینچ لیتی ہیں، آنکھوں کو خوبصورت نظر آتی ہیں اور نفوس باطلہ کو فرحت عطا کرتی ہیں۔ پھر دنیا کی یہ زینت و زیبائش جلد ہی زائل ہو کر ختم ہوجائے گی اور اس دنیا سے محبت کرنے والے کو ندامت اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ رہا آخرت کا گھر تو وہی ﴿الْحَيَوَانُ﴾ حقیقی زندگی ہے، یعنی آخرت کی زندگی درحقیقت کامل زندگی ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ آخرت کے لوگوں کے بدن نہایت طاقتور اور ان کے قویٰ نہایت سخت ہوں، کیونکہ وہ ایسے ابدان اور قویٰ ہوں گے جو آخرت کی زندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس زندگی میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اس زندگی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور جس سے لذت پوری ہوتی ہے مثلاً دلوں کو تازگی اور فرحت بخشنے والی چیزیں اور جسموں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماکولات، مشروبات اور پاک بدن بیویاں وغیرہ ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے خیال میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ ” اگر وہ جانتے ہوتے“ تو وہ کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے اور اگر انہیں عقل ہوتی تو آخرت کی کامل زندگی کو چھوڑ کر لہو و لعب کی زندگی کی طرف مائل نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنہیں علم ہے انہیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہئے کیونکہ انہیں دونوں جہانوں کی حالت معلوم ہے۔