وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور مشرکین نے کہا (٢٩) کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کچھ نشانیاں کیوں نہیں اتاری جاتی ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں، میں تو صرف کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کتاب عظیم لے کر آئے تو ان ظالموں نے اعتراض کیا اور معینہ معجزات کے نزول کا مطالبہ کیا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعً ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍90) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے پانی کا ایک چشمہ جاری نہ کردے۔“ معجزات و آیات کا تعین ان کے بس کی بات ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہیں اور کسی کے اختیار میں کچھ نہیں، اس لیے فرمایا : ﴿ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللّٰـهِ ﴾ ” کہہ دیجیے ! معجزات تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔“ لہٰذا اگر وہ چاہے تو وہ یہ آیات نازل کردے اور نہ چاہے تو روک دے۔ ﴿ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور میں تو صرف کھلا خبردار کرنے والا ہوں“ اس سے زیادہ میرا کوئی مرتبہ نہیں۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللّٰـهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ ” اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور اللہ کا انکار کیا، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لاکر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب، اسی لیے وہ قیامت کے روز، اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔