إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بے شک قارون (٤٠) قوم موسیٰ کا ایک فرد تھا، پھر وہ ان کے خلاف سرکشی کربیٹھا اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ طاقتور لوگوں کی ایک جماعت اس کی کنجیاں بمشکل اٹھاپاتی تھی جب اس سے اس کی قومنے کہا کہ اتراؤ نہیں بے شک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ قارون کے احوال اور اس کے کرتوتوں اور ان کرتوتوں کی پاداش میں اس کے ساتھ جو کیا گیا، اس کے ساتھ خیر خواہی اور جو اسے نصیحت کی گئی تھی ان سب کے بارے میں خبر دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ﴾ یعنی قارون، بنی اسرائیل میں سے تھا جن کو تمام جہانوں پر فضیلت اور اپنے دور میں ان کو سب پر فوقیت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ، نے ان کو اپنے احسانات سے نوازا پس ان کا حال استقامت سے مناسبت رکھتا تھا، مگر قارون اپنی قوم کے راستے سے منحرف ہوگیا، اس نے ان پر ظلم کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی کیونکہ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کئے تھے۔ ﴿وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ ﴾ ” ہم نے اسے (مال و دولت بہت سے) خزانے عطا کئے تھے“ ﴿ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ﴾ ” ان (خزانوں) کی کنجیاں ایک طاقتور ” عصبہ“ کو اٹھانی مشکل ہوتیں۔“ (عُصْبَۃٌ)کا اطلاق سات سے دس تک کی تعداد پر ہوتا ہے، یعنی حتیٰ کہ خزانوں کی کنجیاں اٹھانا ایک طاقتور جماعت کے لئے بھی بہت بھاری تھا۔ یہ تو تھیں ان خزانوں کی کنجیاں،تب ان خزانوں کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟﴿إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ﴾ اس کی خیر خواہی کرتے اور اسے سرکشی سے ڈراتے ہوئے : ﴿ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ یعنی اس دنیاوی شان وشوکت پر خوش ہو نہ اس پر فخر کر کہ یہ تجھے آخرت سے غافل کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں، فخر کرنے والوں اور دنیا کی محبت میں مشغول ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔