أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
جس آدمی سے ہم نے ایک اچھا وعدہ کررکھا ہے اور جو اسے مل کررہے گا، کیا وہ اس آدمی جیسا ہوگا جسے ہم نے دنیاوی زندگی کا سازوسامان دیا ہے پھر اسے قیامت کے دن جواب دہی کے لیے حاضر کیا جائے گا
بنابریں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقلوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ دنیا کو ترجیح دینے والوں کے انجام اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کے انجام کے مابین موازنہ کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿فَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ﴾ ” بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو“ کیا وہ مومن جو آخرت کے لئے کوشاں ہے، اپنے رب کے وعدۂ ثواب یعنی جنت کے لئے عمل پیرا ہے جس میں بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوں گی اور بلاشبہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ یہ ایک کریم ہستی کی طرف سے کیا گیا وعدہ ہے جس کا وعدہ سچا ہوتا ہے، وہ اپنے اس بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی جو اس کی رضا پر چلتا ہے اور اس کو ناراض کرنے والے امور سے اجتناب کرتا ہے۔ ﴿كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیاوی زندگی کے سروسامان سے نوازا ہو“ جو اس دنیا کو حاصل کرتا ہے وہ کھاتا پیتا اور اس سے یوں متمتع ہوتا ہے جیسے جانورمتمتع ہوتے ہیں؟ یہ شخص اپنی آخرت سے غافل ہو کر اپنی دنیا میں مشغول ہے اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروا کی نہ انبیاء و مرسلین کی اطاعت کی۔ یہ اپنے اسی رویے پر جما ہوا ہے۔ اس دنیا سے اس نے جو کچھ زاد راہ سمیٹا ہے وہ ہلاکت اور خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ﴾ ” پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں ہوگا جو حاضر کئے جائیں گے“۔ یعنی پھر حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے دامن میں کوئی بھلائی نہیں، اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے لئے نقصان دہ ہے۔۔۔ کیا تم جانتے ہو اس کا کیا انجام ہوگا؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔۔۔ عقل مند شخص کو وہی چیز اختیار کرنی چاہیے جو اختیار کئے جانے کی مستحق ہے اور اسی چیز کو ترجیح دینا چاہیے جو ترجیح دیئے جانے کے قابل ہے۔