سورة القصص - آیت 60

وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ تو دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے، کیا تمہیں اتنی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا میں زہد کی ترغیب دی ہے نیز انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کے دھوکے میں نہ آئیں اور یہ کہ وہ آخرت میں رغبت رکھیں، نیز اس نے آخرت کو بندے کا مطلوب و مقصود قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سب کچھ جو مخلوق کو عطا کیا گیا ہے، مثلاً سونا چاندی، حیوانات، مال و متاع، عورتیں، بیٹے، ماکولات، مشروبات اور لذات صرف دنیا کی متاع اور اس کی زینت ہیں۔ بندہ جن سے بہت تھوڑے وقت کے لئے متمتع ہوتا ہے وہ بہت ہی تھوڑی سی متاع ہے جو تکدر سے گھری ہوئی اور غم و اندوہ سے لبریز ہے۔ بندہ نہایت قلیل مدت کے لئے فخر وریا کے طور پر اس دنیا سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے پھر جلد ہی یہ دنیا زائل اور تمام کی تمام ختم ہوجاتی ہے اور اس دنیا سے محبت کرنے والا حسرت، ندامت، ناکامی اور حرماں نصیبی کے سوا اس دنیا سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور ہر قسم کے تکدر سے محفوظ زندگی ﴿خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ اپنے اوصاف اور کمیت کے اعتبار سے بہتر ہے وہ زندگی دائمی، سرمدی اور ابدی ہے۔ ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ کیا تم لوگوں میں عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم دونوں امور کے مابین موازنہ کرسکو کہ کون سی زندگی ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اور کون سی زندگی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے بھاگ دوڑ کی جائے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اگر کوئی آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے تو اس کا باعث اس کی کم عقلی ہے۔