فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
پس اگر وہ لوگ آپ کا یہ مطالبہ پورا نہ کرسکیں، تو جان لیجئے اپنی خواہش کی پیروی کرتا اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا
یہ داعی کا کمال انصاف ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اس کا مقصد حق اور رشد و ہدایت ہے اور وہ ایسی کتاب لے کر آیا ہے جو حق پر مشتمل ہے اور موسی ٰعلیہ السلام کی کتاب کے موافق ہے، اس لئے ان دونوں کے سامنے سرنگوں ہونا ہم پر واجب ہے کیونکہ دونوں کتابیں حق اور ہدایت پر مشتمل ہیں اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ حق اور ہدایت پر مشتمل ہو تو میں اس کی پیروی کروں گا۔ ورنہ میں ہدایت اور حق کو چھوڑ کر کسی ایسی کتاب کی اتباع نہیں کرسکتا جو ہدایت اور حق پر مشتمل نہ ہو۔ ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ﴾ ” پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں۔“ یعنی اگر وہ ایسی کتاب نہ لاسکیں جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پر مشتمل ہو۔ ﴿ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ یعنی پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا آپ کی اتباع کو ترک کرنا اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے حق اور ہدایت کو پہچان کر اس کی طرف رجوع کیا ہے بلکہ یہ تو مجرد خواہشات نفس کی پیروی ہے ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰـهِ﴾ ” اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو؟“ پس یہ شخص لوگوں میں گمراہ ترین شخص ہے کیونکہ اس کے سامنے ہدایت پیش کی گئی اور اسے صراط مستقیم دکھایا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے، مگر اس نے اس راستے کی طرف التفات کیا نہ اس ہدایت کو قبول کیا۔ اس کے برعکس اس کی خواہش نفس نے اس کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دی جو ہلاکت اور بدبختی کی گھاٹیوں کی طرف جاتا ہے اور وہ راہ ہدایت کو چھوڑ کر اس راستے پر گامزن ہوگیا۔ جس کا یہ وصف ہو، کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گمراہ ہوسکتا ہے؟ اس کا ظلم و تعدی اور حق کے ساتھ اس کی عدم محبت اس بات کے موجب ہیں کہ وہ اپنی گمراہی پر جمارہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم کردے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ یعنی وہ لوگ کہ ظلم و عناد جن کا وصف بن گیا، ان کے پاس ہدایت آئی مگر انہوں نے اسے رد کردیا اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہدایت کے دروازے کو بند اور ہدایت کی راہ کو مسدود کرکے گمراہی کے دروازوں اور اس کی راہوں کو اپنے لئے کھول لیا۔ پس وہ اپنی گمراہی اور ظلم میں سرگرداں، اپنی ہلاکت اور بدبختی میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کرتا اور اس قول کو اختیار کرتا ہے جو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہو، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں بلکہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔