وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
( اور آپ کو اس لیے بھی بھیجا گیا ہے تاکہ) اگر ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت (23) آئے تو یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس اپنا کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تھا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لے آتے
اہل عرب کے لئے آپ کا انذار و تنذیر اس امر کی نفی نہیں کرتا کہ آپ کو دوسری قوموں کے لئے بھی مبعوث کیا گیا ہے۔ عربوں کے لئے انذارو تنذیر کی وجہ یہ ہے کہ آپ عرب تھے، آپ پر نازل کیا گیا قرآن عربی میں تھا اور آپ کی دعوت کے اولین مخاطب عرب تھے۔ اس لئے اصولی طور پر آپ کی دعوت عربوں کے لئے تھی اور تبعاً دیگر قوموں کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ﴾ (یونس : 10 ؍ 2)” کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ “ ﴿وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ﴾ ” اور اگر ایسا نہ ہو کہ ان کے (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت نازل ہو۔“ یعنی ان کے ارتکاب کفر و معاصی کی پاداش میں ﴿فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو یہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرنے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔“ یعنی اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے ان کی حجت کو ختم کرنے اور ان کی بات کو رد کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا ہے۔