وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور آپ کوہ طور کے دامن میں اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسی کو) آواز دی تھی لیکن آپ اپنے رب کی جانب سے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
﴿وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا﴾ ” اور آپ طور کی جانب بھی نہیں تھے جب کہ ہم نے آواز دی۔“ موسیٰ علیہ السلام کو اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس ظالم قوم کے پاس جائیں، انہیں ہمارا پیغام پہنچائیں، انہیں ہماری نشانیاں اور معجزات دکھائیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کرچکے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ تمام واقعات جو ان مقامات پر موسیٰ علیہ السلام کو پیش آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بغیر کسی کمی بیشی کے اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح وہ حقیقت میں واقع ہوئے تھے اور یہ چیز دو امور میں سے کسی ایک امر سے خالی نہیں : یا تو آپ وہاں موجود تھے اور آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا یا آپ نے ان مقامات پر جاکر ان واقعات کو وہاں کے رہنے والوں سے معلوم کیا تب یہ چیز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں کیونکہ جن امور کے بارے میں ان کے مشاہدے کے ذریعے سے اور ان کا علم حاصل کرکے خبر دی جائے وہ تمام لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں، وہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔۔۔ مگر یہ چیز پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور اس حقیقت کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں۔ پس امر ثانی متعین ہوگیا کہ یہ تمام خبریں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی ہیں۔ لہٰذا قطعی دلیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ثابت ہوگئی اور یہ بات بھی پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور اس کے بندوں پر سایہ فگن ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ”لیکن یہ آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا“ یعنی قریش اور عربوں کے پاس کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانہ طویل سے رسالت ان کے ہاں معروف نہ تھی۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ یعنی شاید کہ وہ خیر اور شر کے فرق میں غور کریں، خیر کو لائحہ عمل بنائیں اور شرکو ترک کردیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بلند مقام پر فائز ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے اور اس نعمت کا شکریہ ادا کرنے میں جلدی کریں جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے نہ اس کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔