فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
تو اس کے رب نے اسے شرف قبولیت (31) بخشا، اور اس کی اچھی نشو ونما کی، اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا، جب بھی زکریا اس کے پاس محراب میں جاتے، اس کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے، وہ پوچھتے کہ اے مریم، یہ چیزیں کہاں سے تیرے لیے آئی ہیں، وہ کہتیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے
﴿ وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ﴾ ” اور ان کی خیر خبر لینے والا زکریا کو بنایا“ یہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ان کی تربیت کامل ترین حال میں ہو۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کرتے کرتے ان کی عمر بڑھی، اور دوسری عورتوں سے فائق ہوگئیں۔ وہ اپنے رب کی عبادت کے لئے وقف ہوگئیں اور اپنی محراب یعنی نماز کی جگہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگیں۔ ﴿كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا﴾ ” جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے، تو ان کے پاس روزی رکھی ہوئے پاتے“ جس میں ان کی محنت و مشقت شامل نہیں تھی۔ بلکہ یہ رزق انہیں اللہ نے کرامت کے طور پر عطا فرمایا۔ زکریا علیہ السلام نے فرمایا ﴿أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَا﴾ ” یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی“﴿قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ﴾” وہ جواب دیتیں، یہ اللہ کے پاس سے ہے“ یہ اس کا فضل و احسان ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ” بے شک اللہ جسے چاہے بے شماری روزی دے“ یعنی جہاں سے بندے کو گمان بھی نہ ہو اور بغیر محنت کھانے کا بندوبست فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا – وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبْ ﴾ (الطلاق :65؍ 2۔3) ” اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے خلاصی کی صورت بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔‘،علاوہ ازیں اس آیت سے اولیائے کرام کی خرق عادت کرامات کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے ثابت ہیں۔ اس لئے جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا موقف درست نہیں۔ جب زکریا علیہ السلام نے مریم علیہا ا لسلام پر اللہ کا یہ احسان ملاحظہ فرمایا اور انہیں بغیر کوشش اور محنت کے، بہترین رزق ملنے کی کرامت دیکھی تو آپ کے دل میں بیٹے کی خواہش پیدا ہوگئی۔