قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
باپ نے کہا، میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بچیوں میں سے ایک سے تمہاری شادی کردوں، اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میرے پاس ملازمت کرو گے اور اگر دس سال پورے کرو گے تو تمہاری جانب سے میرے ساتھ بھلائی ہوگی اور میں تم پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا ہوں تم مجھے انشاء اللہ اچھے لوگوں میں سے پاؤ گے
﴿قَالَ﴾ یعنی صاحب مدین نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي﴾ ” میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم میری خدمت کرو۔“ یعنی میرے ہاں نوکر ٹھہر جاؤ۔ ﴿ثَمَانِيَ حِجَجٍ ﴾ آٹھ سال تک ﴿فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ﴾ ” پس اگر دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے ہوگا۔“ یعنی آپ کی طرف سے عطیہ ہوگا زائد مدت آپ پر واجب نہیں ہے۔ ﴿ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ﴾ ” میں نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کروں“ اور میں حتمی طور پر دس سال کی مدت مقرر کردوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو پر مشقت کاموں کے لئے ملازم رکھوں۔ میں نے تو آپ کو نہایت آسان کام کے لئے ملازم رکھا ہے جس میں کوئی مشقت نہیں۔ ﴿سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔“ صاحب مدین نے آپ کو کام کی سہولت اور حسن معاملہ کے ذریعے سے ترغیب دی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرد صالح کے لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حسن اخلاق سے کام لے۔