وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ ۖ فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
موسی کی ماں نے ان کی بہن سے کہا (٧) کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ تو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور لوگوں کو پتہ نہ چلا
﴿ وَقَالَتْ﴾ ’’موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا‘‘ ﴿لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ ﴾ ” آپ کی بہن سے کہ اس بچے کے پیچھے پیچھے چلتی جاؤ۔“ یعنی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے جا اور اس پر اس طرح نظر رکھ کہ کسی کو تمہارے بارے میں پتہ نہ چلے اور نہ تمہارے مقصد کا ان کو علم ہو۔ پس وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی ﴿فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ یعنی وہ ایک طرف ہو کر اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتی رہی گویا کہ وہ کوئی راہ گیر عورت ہے اور اس کا کوئی قصد و ارادہ نہیں ہے۔ یہ انتہا درجے کی حزم و احتیاط تھی اگر وہ بچے کو دیکھتی رہتی اور ایک قصد و ارادہ کے ساتھ آتی تو لوگ سمجھ جاتے کہ اسی عورت نے صندوق کو دریا میں ڈالا ہے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو، ان کے گھر والوں کو سزا دینے کی خاطر، ذبح کردیتے۔