وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور موسیٰ کی مان کا دل بیٹھا جارہا تھا قریب تھا کہ وہ اس راز کو فاش کردیتی اور اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے تاکہ ہمارے وعدے پر اس کا ایمان باقی رہے
جب موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ سے جدا ہوگئے تو وہ بہت زیادہ غمگین ہوئیں۔ بشری تقاضے کے مطابق صدمے اور قلق سے ان کا دل سخت بے قرار اور غم سے اڑا جارہا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غم کرنے اور خوف زدہ ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو واپس ان کے پاس لوٹادے گا۔ ﴿إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ﴾ ” تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیتی۔“ یعنی دلی صدمے کی وجہ سے ﴿ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا﴾ پس ہم نے ان کو ثابت قدمی عطا کی اور انہوں نے صبر کیا اور اس راز کو ظاہر نہ کیا۔ ﴿ لِتَكُونَ﴾ ”تاکہ ہوجائے وہ“ صبر و ثبات کو یاد رکھتے ہوئے ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” مومنوں میں سے“ جب بندہ مومن پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے اور وہ اس پر صبر اور ثابت قدمی سے کام لے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بندے کا مصیبت کے وقت ہمیشہ بے صبری کا مظاہرہ کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔