وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ
اور ہم نے چاہا کہ انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون وہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو بنی اسرائیل کے ہاتھوں وہ بات دکھلا دیں جس کا انہیں خطرہ تھا
﴿وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور ملک میں ان کو قدرت دیں۔“ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمالیا ان پر اس کی مشیت جاری ہوگئی۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ ہم اسی طرح چاہتے تھے کہ ﴿نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا﴾ ” فرعون، (اس کے وزیر) ہامان اور ان کے لشکروں کو (جن کی مدد سے وہ ظلم اور بغاوت اور سرکشی کرتے تھے)‘‘ ﴿مِنْهُم﴾ یعنی اس کمزور گروہ کی طرف سے۔ ﴿مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ﴾ ” وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے۔“ یعنی ان کو ان کے گھروں سے نکال دینا۔ اس لئے وہ ان کا قلع قمع کرنے، ان کی شوکت کو توڑنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے میں کوشاں تھے کیونکہ ان کے بیٹے ان کی طاقت اور شوکت کا سبب تھے۔ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے اسباب کو آسان اور اس کی راہ کو ہموار کردیتا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب جاری فرمائے جس کو اس کے اولیاء جانتے تھے نہ اعداء۔۔۔ جو اس مطلوب و مقصود تک رسائی کا ذریعہ بن گئے۔