إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
بے شک فرعون (٤) سرزمین مصر میں بہت متکبر ہوچلا تھا، اور وہاں کے رہنے والوں کو اس نے مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس نے بہت ہی کمزور بنارکھا تھا ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بے شک وہ بڑا ہی فساد برپا کرنے والا تھا
موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ﴿ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کہ بلاشبہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا۔“ یعنی اس نے اپنے اقتدار، سلطنت،لشکروں اور اپنے جبروت کی بناء پر تکبر اور سرکش لوگوں کا وتیرہ اختیار کیا۔ مگر وہ کامیاب لوگوں میں سے نہ تھا۔﴿وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا﴾’’اور اس نے وہاں کےلوگوں کوگروہ گروہ بنا رکھا تھا۔‘‘ یعنی ان کو متفرق گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق ان میں تصرت کرتا تھا اور اپنے قہر اور تسلط کے بل بوتے پر جو حکم چاہتا نافذ کرتا تھا۔ ﴿يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ ﴾ ” ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کردیا تھا۔“ اس گروہ سے مراد بنی اسرائیل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اس کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتا مگر اس نے ان کو زیر دست بنا کر ذلیل کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کو روکنے والا اور اس کے ارادوں میں حائل ہونے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا تھا اور نہ وہ ان کے معاملے کو کوئی اہمیت ہی دیتا تھا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ﴿يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ﴾ ” وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔“ اس خوف سے کہ کہیں ان کی تعداد زیادہ نہ ہوجائے اور اس کے ملک میں وہ غالب آکر کہیں اقتدار کے مالک نہ بن جائیں۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” یعنی وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا مقصد اصلاً دین ہوتا ہے نہ اصلاح دنیا اور اس کا مقصد زمین میں اس کی طرف سے بگاڑ پیدا کرنا تھا۔“