لَقَدْ وُعِدْنَا هَٰذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِن قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
ایسا وعدہ تو ہم سے اور ہمارے باپ دادوں سے پہلے بھی کیا گیا تھا یہ باتیں گذرے ہوئے لوگوں کے افسانے ہیں
﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا هَـٰذَا﴾ تحقیق وعدہ کیاگیا ہے ہم سے اس کا۔“یعنی مرنےکےبعد دوبارہ اٹھائے جانے کا۔﴿نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِن قَبْلُ﴾ ” ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی“ لیکن یہ وعدہ ہمارے سامنے پورا ہوا نہ ہم نے اس کی بابت کچھ دیکھا۔ ﴿ إِنْ هٰـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ﴾ یعنی، یہ تو محض پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وقت گزاری کی جاتی ہے۔ اس کی کوئی اصل ہے نہ ان میں کوئی سچائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی تکذیب کرنے والوں کے احوال کے بارے میں ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کی خبردی کہ وہ کوئی علم نہیں رکھتے کہ قیامت کب آئے گی، پھر اس بارے میں ان کے ضعف علم کی خبر دی، پھر آگاہ فرمایا کہ وہ شک میں مبتلا ہیں پھر فرمایا کہ وہ اندھے ہیں پھر خبردی کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے بعید سمجھتے ہیں۔۔۔ یعنی ان احوال کے سبب سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف نکل گیا اس لئے انہوں نے گناہ اور معاصی کا ارتکاب کیا، ان کے لئے تکذیب حق اور تصدیق باطل آسان ہوگئی اور عبادت کے مقابلے میں انہوں نے شہوات کو حلال ٹھہرالیا۔ پس وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑگئے۔