فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
تو ان کی قوم کا جواب (٢٠) اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا کہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ تم لوگ لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو، اس لیے کہ یہ لوگ بڑے ہی پاکباز بنتے پھرتے ہیں۔
﴿فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ﴾ ” آپ کی قوم کا جواب صرف یہ تھا“ ان کا جواب قبولیت پر مبنی تھا نہ وہ گناہوں سے باز آئے اور نہ انہوں نے کوئی نصیحت ہی پکڑی اس کے برعکس ان کا جواب تو عناد، مخالفت، اپنے نبی اور اپنے امانت دار رسول کو اس کے وطن اور شہر سے جلا وطن کرنے کی دھمکی پر مبنی تھا ﴿إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ﴾ ” انہوں نے کہا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو“ گویا ان سے پوچھا گیا کہ تم لوط علیہ السلام کے گھرانے سے کیوں ناراض ہو ان کا وہ کون سا گناہ ہے جو ان کو بستی سے نکالنے کا موجب ہے تو انہوں نے جواب دیا ﴿إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ﴾ ” وہ بڑے پاکباز بنتے ہیں“ یعنی وہ مردوں کے ساتھ بدفعلی سے بچتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے انہوں نے بہترین نیکی کو بدترین برائی بنا دیا انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ ان کے نبی نے ان کو جو نصیحت کی انہوں نے اس کی نافرمانی کی بلکہ وہ اس حد تک پہنچ گئے کہ اسے اپنی بستی سے نکالنے اکا ارادہ کرلیا، مصیبت کا دار و مدار زبان پر ہوتا ہے، اس لئے کہنے لگے ﴿أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴾(الاعراف:7؍82) ” انہیں اپنی بستی سے نکال باہر کرو وہ بڑے پاکباز لوگ بنتے ہیں“ اور اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ تم ایسی خباثت اور گندگی میں لتھڑے ہوئے ہو جو تمہاری بستی پر نزول عذاب اور جو اس بستی سے نکل جائے اس کی نجات کا تقاضا کرتی ہے۔