وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے داؤد و سلیمان کو علم (٨) دیا اور دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں حضرت داؤد اور ان کے فرزند سلیمان علیہما السلام پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے انہیں وسیع علم عطا کیا اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ ” علم“ کو نکرہ کے صیغے میں بیان کیا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ (الانبیاء : 21؍78۔ 79)” اور یاد کیجئے داؤد اور سلیمان کو جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر گئی تھیں ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے۔ پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم سے ہم نے دونوں ہی کو سرفراز کیا تھا۔ “ ﴿ وَقَالَا ﴾ ان دونوں نے اس احسان پر کہ اللہ نے ان کو تعلیم دی، اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے کہا : ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔“ پس ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی کہ اس نے انہیں ایمان سے بہرہ مند کیا اور انہیں سعادت مند لوگوں میں شامل کی اور وہ ان کے خواص میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ اہل ایمان کے چار درجے ہیں۔ صالحین، ان سے اوپر شہداء، ان سے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء۔ داؤد اور سلیمان علیہما السلام اللہ تعالیٰ کے خاص رسولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کا درجہ پانچ اولوالعزم رسولوں کے درجے سے کم تر ہے۔ تاہم وہ جملہ اصحاب فضیلت انبیاء و رسل میں شمار ہوتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی بہت زیادہ مدح و توصیف بیان کی ہے۔ پس انہوں نے اس منزلت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ یہ بندے کی سعادت کا عنوان ہے کہ وہ تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ ایمان رکھے کہ تمام نعمتیں صرف اس کے رب کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ وہ ان نعمتوں پر فخر کرے نہ ان پر تکبر کرے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ نعمتیں اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی مشترک مدح کی پھر سلیمان علیہ السلام کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عظیم سلطنت عطا کی اور انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دئیے جو ان کے باپ داؤد علیہ السلام سرانجام نہ دے سکے۔