ذِكْرَىٰ وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ
یاد دہانی کے لیے، اور ہم ظالم نہیں تھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ، اہل تکذیب کو ہلاک کرنے کے بارے میں اپنے عدل کامل کے متعلق آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کسی بستی پر اس وقت تک عذاب اور ہلاکت نہیں کرتا جب تک ان کا عذر ختم نہ ہوجائے اور ان پر حجت قائم نہ ہوجائے۔ وہ ان کے اندر، ان کو برے انجام سے ڈرانے والے مبعوث کرتا ہے جو انہیں واضح آیات کے ذریعے سے ڈراتے ہیں، انہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں، انہیں ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے روکتے ہیں، وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی ناراضی کے بارے میں اس کی عادت سے متنبہ کرتے ہیں۔ ﴿ ذِكْرَىٰ ﴾ ” نصیحت“ یعنی یہ اتمام حجت ان کے لئے یا ددہانی اور ان کے خلاف حجت قائم کرنا ہے ﴿ وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾ ” اور ہم ظلم کرنے والے نہیں۔“ کہ ہم بستیوں کو ان کے انجام سے ڈرائے بغیر ہلاک کردیں، ان کو پکڑ لیں اور ان کی حالت یہ ہو کہ انہیں ڈرانے والوں کے بارے میں کچھ خبر نہ ہو۔ ﴿ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴾ ( بنی اسرائیل : 17؍15) ” اور ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کہ حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لئے ایک رسول نہ بھیج دیں۔“ ﴿ رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾ (النساء: 4؍165) ’’تمام رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے۔ “