أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا مشرکین مکہ کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ اس (قرآن) کو بنی اسرائیل کے علما بھی جانتے ہیں۔
﴿ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً ﴾ ” کیا ان کیلئے یہ دلیل نہیں“ اس کتاب کی صحت اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر ﴿ أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾” کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں“ جن پر علم کی انتہا ہے اور وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور انصاف کرنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ اگر کسی معاملے میں اشتباہ واقع ہوجائے تو باصلاحیت اور اہل درایت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان کا قول دوسروں پر حجت ہوتا ہے۔ جیسے ان جادوگروں نے، جو جادو کے علم میں ماہر تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کی صداقت کو پہچان لیا۔ اس کے بعد جاہل اور لاعلم لوگوں کے قول کو کوئی اہمیت ہیں دی جاتی۔