فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
پس اگر وہ لوگ آپ کے ساتھ جھگڑیں، تو آپ کہہ دیجئے، کہ میں نے تو اپنا سر اللہ کے سامنے جھکا دیا (17)، اور میرے ماننے والوں نے بھی، اور آپ اہل کتاب اور مشرکینِ عرب سے کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگوں نے بھی اپنا سر اللہ کے سامنے جھکا دیا؟ پس اگر وہ اسلام لے آئیں گے تو ہدایت پا لیں گے، اور اگر روگردانی کریں گے تو آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے
اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ عیسائی اور دیگر جو لوگ اسلام پر دوسرے مذاہب کو فوقیت دیتے ہیں ان سے بحث کرتے ہوئے انہیں فرما دیں کہ ﴿ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ﴾” میں نے اور میرے تابع داروں نے اللہ کی اطاعت میں اپنا چہرہ مطیع کردیا“ یعنی میں نے اور میرے پیروکاروں نے اقرار کیا ہے، گواہی دی ہے اور اپنے مالک کے سامنے سر جھکا دیے ہیں۔ ہم نے اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب کو چھوڑ دیا ہے، ہمیں ان کے باطل ہونے پر یقین حاصل ہے۔ یہ کہہ کر آپ ان لوگوں کو مایوس کردیں جن کو تمہارے بارے میں کوئی ہے (کہ شاید اسلام چھوڑ کر ہمارا دین اختیار کرلیں) اور شبہات پیش آنے پر اس طرح تمہارے دین کی تجدید ہوجائے گی اور جو شبہات کا شکار ہے اس کے خلاف حجت قائم ہوجائے گی۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل علم بندوں کو توحید کی دلیل اور گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ تاکہ وہ دوسروں کے خلاف حجت بن جائیں، اہل علم کے سردار، سب سے افضل اور سب سے بڑے عالم ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد آپ کے متبعین درجہ بدرجہ عالم ہیں۔ انہیں وہ صحیح علم اور کامل عقل حاصل ہے کہ کسی اور کو ان کے برابر تو کیا، قریب تر بھی حاصل نہیں۔ جب اللہ کی توحید اور اس کے دین کی حقانیت واضح دلیلوں سے ثابت ہوچکی ہے، مخلوقات میں سے کامل ترین اور عالم ترین شخصیت نے انہیں مانا اور پیش کیا، تو اس سے یقین حاصل ہوگیا اور ہر شک و شبہ دور ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ اس کے سواہر مذہب باطل ہے۔ اس لئے فرمایا﴿ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ﴾” اہل کتاب سے (یعنی نصاریٰ اور یہود سے۔) اور ان پڑھ لوگوں سے (یعنی عرب و عجم کے مشرکین سے) کہہ دیجئے“﴿ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا﴾” کیا تم بھی اطاعت اختیار کرتے ہو پھر اگر یہ بھی تابع دار بن جائیں“۔ اور تمہاری طرح ایمان لے آئیں﴿ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ﴾” تو وہ یقیناً ہدایت پانے والے ہیں۔“ جس طرح تم ہدایت یافتہ ہو۔ اس صورت میں وہ تمہارے بھائی بن جائیں گے۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو تمہیں حاصل ہیں اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو تمہارے ہیں ﴿وَّإِن تَوَلَّوْا﴾” اور اگر یہ روگردانی کریں“ اور اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کے مخلاف مذاہب پر قائم رہیں۔﴿ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ ﴾” تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے“ آپ کو آپ کا رب ضرور اجر و ثواب دے گا۔ مخالف پر حجت قائم ہوچکی۔ اس کے بعد صرف یہی چیز باقی رہ گئی ہے کہ وہ انہیں ان کے جرم کی سزا دے۔ اس لئے فرمایا ﴿ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾” اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے“