قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
لوگوں نے کہا کیا ہم تم پر ایمان (٣١) لے آئیں، حالانکہ تمہارے پیروکار نہایت گھٹیا لوگ ہیں۔
جب ہم حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بارے میں سنتے ہیں کہ انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا : ﴿أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ﴾ تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ اور خطا کار ہیں اگرچہ ہم حضرت نوح علیہ السلام کے معجزات اور ان کی عظیم دعوت کا مشاہدہ نہ بھی کریں جو کہ آپ کی سچائی پر پختہ یقین اور جس چیز کو لے کر آپ اٹھے ہیں اس کے صحیح ہونے کا فائدہ دیتے ہیں کیونکہ ان منکرین نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو رد کرنے کی بنیاد ایسی چیز پر رکھی ہے جس کا فساد سب پر واضح ہے۔ انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکراتے اور ایسی چیز کی بنا پر آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جس کی بنا پر مخالفت کرنا درست نہ تھا : ﴿أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ﴾ یعنی ہم تیری اتباع کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیری اتباع کرنے والے معاشرے میں سبب سے گھٹیا، رذیل اور گرے پڑے لوگ ہیں۔ ان کی ان باتوں سے ان کا حق سے تکبر کرنا اور حقائق سے جاہل رہنا پہنچانا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر ان کا مقصد تلاش حق ہوتا اور انہیں آپ کی دعوت میں کوئی شک و شبہ ہوتا تو کہتے کہ آپ جو چیز لے کر آئے ہیں اس تک پہنچانے والے طرق کے ذریعے سے ہمیں اس کے صحیح ہونے کے بارے میں وضاحت فرما دیجئے ! اگر وہ غور کرتے جیسا کہ غور کرنے کا حق ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ نوح علیہ السلام کے متبعین ہی بہترین لوگ اور انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں، وہ بہترین عقل اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ سب سے رذیل وہ ہے جس سے خصوصیات عقل سلب کرلی گئی ہوں اور وہ پتھروں کی عبادت کو مستحسن سمجھتا ہو اور وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور حاجتوں میں ان کو پکارنے پر راضی ہو اور اس نے کامل ترین انسانوں یعنی انبیاء و رسل کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہو۔ جب دو جھگڑے والوں میں سے ایک کلام باطل کے ساتھ بات کر رہا ہو تو محض اس کے کلام ہی سے اس کے فساد کا پتہ چل جائے گا، اس سے قطع نظر کہ اس کے مدمقابل دوسرے آدمی کے دعویٰ کی صحت پر غور کیا جائے۔