فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ
پھر جب تمہارا ڈر ہوا تو تمہارے پاس سے بھاگ نکلا، تو میرے رب نے مجھے علم و حکمت عطا کی اور مجھے اپنے رسولوں میں سے بنا لیا۔
﴿ فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ ﴾ ” پس جب مجھے تم سے ڈر لگا تو میں تم سے بھاگ گیا۔“ یہ وہ وقت تھا جب تم نے میرے قتل کا مشورہ کرلیا تھا پس میں مدین کی طرف بھاگ کر چلا گیا اور کئی سال وہاں رہا، پھر تمہارے پاس چلا آیا۔ ﴿ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴾ ” پھر اللہ نے مجھے نبوت و علم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا۔“ حاصل کلام یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر فرعون کا اعتراض ایک جاہل اور جان بوجھ کر جاہل بننے والے کا اعتراض ہے کیونکہ اس نے آنجناب کے رسول ہونے سے اس امر کو مانع قرار دیا کہ ان سے قتل کا ارتکاب ہوگیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر واضح کردیا کہ ان سے یہ قتل انجانے اور خطا سے ہوا ہے جس میں انسان کے قتل کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فضل کسی کے لئے ممنوع نہیں ہے تو پھر تم حکمت اور رسالت کو مجھ سے کیونکر روک سکتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے۔ اے فرعون ! باقی رہا تیرا یہ طعنہ : ﴿ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا ﴾ ” کیاہم نے تیری، جب کہ تو بچہ تھا، پرورش نہیں کی۔“ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس میں تیرا کوئی احسان نہیں۔