قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا
اے میرے نبی ! آپ کفار قریش سے کہہ دیجیے (٣٣) اگر تم میرے رب کی عبادت نہیں کرو گے تو وہ تمہاری پرواہ نہیں کرے گا، پس اب جبکہ تم نے رسول اور قرآن کی تکذیب کردی ہے تو اس کی سزا تمہیں ضرور بھگتنی ہوگی۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی اپنی رحمت کی طرف اضافت کی ہے اور ان کے فضل و شرف کی وجہ سے ان کو عبودیت سے مختص کیا ہے اس لئے کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے سوا وہ بذات خود اور دوسرے لوگ عبودیت میں داخل کیوں نہیں ہوسکتے؟ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کو ان مذکورہ لوگوں کے سوا کسی کی پروا نہیں۔ اگر تم نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ میں اسے نہ پکارا ہوتا تو وہ تمہاری کبھی پروا کرتا نہ تم سے محبت کرتا، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ کو نہ پکارتے تو میرا رب بھی تمہاری کچھ پروا نہ کرتا۔ پس تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا لازم ہوگی۔“ یعنی عذاب تم سے اس طرح چپک جائے گا جس طرح قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اور اپنے مومن بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔