خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہاں ہمیشہ رہیں گے وہ بہت ہی اچھا ٹھکانا اور جائے قیام ہوگا۔
یہ دعا اعمال صالحہ، اطاعت الٰہی پر استقامت اور ثابت قدمی، معاصی سے باز رہنے، المناک تقدیر پر صبر کرنے، علم کامل۔۔۔ جو صاحب علم کو درجہ یقین پر فائز کرتا ہے۔۔۔ خیر کثیر اور عطائے جزیل کو مستلزم ہے۔ نیز یہ دعا اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ وہ انبیاء و مرسلین کے بعد مخلوق میں بلند ترین درجہ پر فائز ہوں۔ چونکہ وہ بلند ہمت اور بلند مقصد لوگ ہیں اس لئے ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی، اللہ تعالیٰ انہیں جزا کے طور پر بلند منازل عطا کرے گا، چنانچہ فرمایا : ﴿ أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا ﴾ ” ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے۔“ یعنی انہیں بلند منازل اور خوبصورت مساکن عطا کئے جائیں گے اور ان کے لئے ہر وہ چیز جمع ہوگی جس کی دل خواہش کرے گا اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ سب کچھ انہیں ان کے صبر کی بنا پر عطا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ (الرعد : 13؍23، 24) ”فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ سب کچھ اس بنا پر عطا ہوا کہ تم نے صبر کیا تھا، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔“ اس لئے یہاں فرمایا : ﴿ وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴾ ” اور وہ ان سے دعا وسلام سے ملاقات کریں گے۔“ یعنی ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام بھیجا جائے گا، عالی قدر فرشتے ان کو سلام کہیں گے اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور وہ ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وقار، سکینت، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے لئے تواضع اور انکسار، حسن ادب، بردباری، وسعت اخلاق، جہلاء سے درگزر اور اعراض، ان کے برے سلوک کے مقابلے میں حسن سلوک، تہجد، اس میں اخلاص، جہنم سے خوف، اس (جہنم) سے اپنی نجات کے لئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑانے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں واجب اور مستحب نفقات میں سے خرچ کرنے اور اس میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے جیسے اوصاف سے ان کو موصوف کیا ہے۔ جب خرچ کرنے میں، جس کے بارے میں عادۃً افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے، وہ اعتدال کو اختیار کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں ان کی میانہ روی تو بدرجہ اولیٰ ہوگی۔ وہ کبائر سے محفوط ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص، جان اور ناموس کے معاملات میں عفت اور کسی گناہ کے صادر ہونے پر توجہ جیسی صفات سے متصف ہیں نیز وہ ایسی تقریبات اور مجالس میں حاضر نہیں ہوتے جن میں منکرات اور قولی و فعلی فسق و فجور ہو اور نہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ لغویات اور ایسے گھٹیا افعال سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں، جن میں کوئی فائدہ نہیں اور یہ چیز ان کی مروت، انسانیت اور ان کے کمال کو مستلزم ہے نیز اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ قولی و فعلی طور پر خسیس افعال سے بالا و بلند تر ہیں۔ وہ آیات الٰہی کا قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ان کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر عمل کرتے ہیں، ان کے احکام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کو کامل ترین طریقے سے پکارتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے متعلقین فائدہ اٹھاتے ہیں، اور ان کی اولاد اور ان کی بیویوں کی اصلاح سے تمام مسلمان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں، انہیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ رکھتے ہیں کیونکہ جو کوئی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے وہ لازمی طور پر اس کے لئے اسباب بھی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بلند ترین درجات پر پہنچنے کی دعا کرتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لئے ممکن ہے اور وہ امامت اور صدیقیت کا درجہ ہے۔۔۔ اللہ کی قسم ! یہ کتنی بلند مرتبہ صفات ہیں، یہ کتنی بلند ہمتی ہے، یہ کتنے جلیل القدر مقاصد ہیں، یہ نفوس کتنے پاک اور یہ قلوب کتنے طاہر ہیں، یہ چنے ہوئے لوگ کتنے پاکیزہ اور یہ سادات کتنے متقی ہیں ! یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل، اس کی نعمت اور اس کی رحمت ہے جس نے ان کو ڈھانپ لیا ہے اور یہ اس کا لطف و کرم ہے جس نے ان کو بلند مقامات تک پہنچایا۔ اللہ کی قسم ! یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت ہے کہ اس نے ان کے سامنے اپنے ان بلند ہمت بندوں کے اوصاف بیان فرمائے، ان کی نشانیاں بیان کیں، ان کے سامنے ان کی ہمت اور عزائم آشکارا کئے اور ان کا اجرواضح کیا تاکہ ان میں بھی ان اوصاف سے متصف ہونے کا اشتیاق پیدا ہو اور یہ بھی اس راستے میں جدوجہد کریں اور وہ اس ہستی سے سوال کریں، جس نے اپنے ان بندوں پر احسان کیا، جس نے ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا اور جس کا فضل و کرم ہر زمان و مکان میں ہر وقت اور ہرآن عام ہے۔۔۔ کہ وہ انہیں بھی ہدایت سے نوازے جیسے ان کو ہدایت سے نوازا یہ اور اپنی تربیت خاص کے ذریعے سے ان کی بھی سرپرستی فرمائے جیسے ان کی سرپرستی فرمائی ہے۔ اے اللہ ! ہر قسم کی ستائش کا صرف تو ہی مستحق ہے، میں صرف تیرے ہی پاس شکوہ کرتا ہوں، تجھ ہی سے اعانت طلب کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ مجھ میں گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی مگر صرف تیری توفیق کے ساتھ۔ ہم خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور اگر تو ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا کرکے نیکی کو ہمارے لئے آسان نہ کرے تو ہم ذرہ برابر بھی نیکی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، ہم ہر لحاظ سے نہایت کمزور اور عاجز بندے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اگر تو ایک لمحے کے لئے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کردے تو گویا تو نے ہمیں کمزوری، عجز اور گناہ کے حوالے کردیا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم صرف تیری رحمت پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی بنا پر تو نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق عطا کیا، ہمیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا اور تکلیفوں اور سختیوں کو ہم سے دور کیا، ہم پر ایسی رحمت کا سایہ کرجو ہمیں تیری رحمت کے سوا ہر رحمت سے بے نیاز کردے۔ پس جو کوئی تجھ سے سوال کرتا ہے اور تجھ سے امیدیں باندھتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا۔