وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور اس دن سے تم لوگ ڈر کر رہو جس دن اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر ایک آدمی کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہ ہوگا
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾” اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید کی ان آیات میں شامل ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئیں۔ اس پر ان احکام اور اوامرونواہی کو ختم کیا گیا کیونکہ اس میں نیکی پر جزا کا وعدہ ہے، برائی پر سزا کی وعید ہے اور یہ بیان ہے کہ جس شخص کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پاس جانے والا ہے، جو اسے ہر چھوٹے بڑے ظاہر اور پوشیدہ عمل کی جزا دے گا، اور وہ اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا، اس یقین کے نتیجے میں اس کے دل میں رغبت و رہبت (شوق اور خوف) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب تک دل میں یہ یقین جاگزیں نہ ہو، یہ چیز کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتی۔