سورة الفرقان - آیت 7

وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کافروں نے کہا، اس رسول (٥) کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا گیا ہے تاکہ اس کے ساتھ وہ بھی لوگوں کو ڈراتا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ ان لوگوں کا قول ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کی رسالت میں جرح و قدع کی۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ رسول فرشتہ یا کوئی بادشاہ کیوں نہیں یا اس کی خدمت اور مدد کے لیے کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟ چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿ مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ ﴾ یعنی یہ کیسا شخص ہے جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے ﴿ يَأْكُلُ الطَّعَامَ ﴾ ” کھانا کھاتا ہے“ حالانکہ یہ تو بشرکی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ ان امور کا محتاج ہوتا بشر جن کا محتاج ہے۔ ﴿ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ یعنی خرید و فروخت کے لیے’’بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘ اور یہ ان کے خیال کے مطابق ایک رسول کے لائق نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ (الفرقان :25؍20)” ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجیے ہیں وہ سب کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔“ ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ ﴾ یعنی اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو اس کا ہاتھ بٹاتا ﴿ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ﴾ ” پس وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔“ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق آپ رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ آپ کو رسالت کی۔ ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت اور قدرت حاصل ہے۔ ﴿ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا ﴾ ” پس وہ گمراہ ہوگئے اور کسی طرح وہ راہ پر نہیں آسکتے۔“ انہوں نے اس قسم کی متناقض باتیں کہی ہیں جو سراسر جہالت، گمراہی اور حماقت پر مبنی ہیں۔ ان میں کوئی بھی ہدایت کی بات نہیں، بلکہ ان میں کوئی ادنیٰ ساشبہ ڈالنے والی بات بھی نہیں جو رسالت میں قادح ہو۔ مجرد غورو فکر کرنے سے ایک عقلمند شخص کو اس کے بطلان کا قطعی یقین ہوجاتا ہے جو اس کو رد کرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غورو فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ہے کہ آیا یہ اعتراضات رسول کی رسالت اور صداقت کے قطعی یقین کے بارے میں توقف کے موجب بن سکتے ہیں؟