وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ (٣١) بنائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنایا تھا، اور جس دین کو ان کے لیے پسند کیا ہے اسے ثابت و راسخ کردے گا، اور ان کے خوف و ہراس کو امن سے بدل دے گا، وہ لوگ صرف میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد کفر کی راہ اختیار کریں گے، وہی لوگ فاسق ہوں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے ان سچے وعدوں میں سے ہے جن کی تاویل و تعبیر کا مشاہدہ کروایا گیا ہے۔ امت محمدیہ میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ وہ زمین میں خلفاء ہوں گے اور زمین کی تمام تدبیر ان کے دست تصرف میں ہوگی۔ وہ اس دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، یعنی دین اسلام کو جو تمام ادیان پر فائق ہے، مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کے لئے اس کے فضل و شرف اور اس پر اپنی نعمت کی بنا پر دین اسلام کو پسند فرمایا، یعنی وہ اس دین کو قائم کرنے، اس کے ظاہری و باطنی قوانین کو خود اپنی ذات پر اور دوسروں پر یعنی دیگر ادیان کے پیرو کاروں اور تمام کفار پر نافذ کریں گے جو مفتوح اور مغلوب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ ان میں سے جب اور جہاں کہیں ایک مسلمان ہوتا تو وہ اپنے دین کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتا تھا اگر اظہار کرتا تو کفار کی طرف سے بے شمار اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلمان من حیث الجماعت دوسروں کی نسبت بہت کم تھے روئے زمین کے تمام لوگ مسلمانوں کو اذیت دینے میں متحد تھے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان امور کا وعدہ فرمایا جن کا اس سے قبل مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ ہیں خلافت ارضی، زمین میں اقتدار، امامت دین پر قدرت، کامل امن، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کسی کا خوف نہ ہوگا۔ اس امت کے اولین لوگوں نے ایمان کو قائم کیا اور دوسروں سے بڑھ کر نیک کام کئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملکوں اور قوموں پر حکمرانی عطا کی، مشرق و مغرب کو ان کے زیرنگیں کردیا، ان کو کامل امن اور کامل قدرت عطا کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی حیران کن اور تعجب انگیز نشانی ہے۔ قیامت کے برپا ہونے تک یہ معاملہ اسی نہج پر جاری و ساری رہے گا جب تک مسلمان ایمان کو قائم رکھیں گے اور اس کے تقاضوں کے مطابق نیک کام کرتے رہیں گے اس وقت تک انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیزیں حاصل ہوتی رہیں گی۔۔۔ البتہ مسلمانوں کے ایمان اور عمل سالح میں خلل واقع ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کفار کو اقتدار عطا کر کے انہیں مسلمانوں پر مسلط کردیتا ہے۔ ﴿ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ اے مسلمانو ! اس کامل اقتدار اور تسلط کے بعد بھی اگر کوئی کفران نعمت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ ’’تو یہی لوگ نافرمان ہیں‘‘جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے اور بگڑے ہوئے ہیں انہوں نے اصلاح کا کوئی کام سر انجام دیا نہ ان میں بھلائی کی کوئی اہلیت ہے کیونکہ جو کوئی اپنے اقتدار، غلبہ اور موانع ایمان کے عدم وجود کے وقت ایمان کو ترق کردیتا ہے تو یہ چیز اس کے فساد نیت اور خبث باطن پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کے لیے خبث باطن کے سوا ترک دین کا کوئی داعیہ موجود نہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے بھی اہل ایمان کو خلافت ارضی عطا کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴾ (الاعراف : 7؍129) ’’اور تم کو زمین کی خلافت عطا کرے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ ﴾ (القصص : 28؍6،5)’’ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں کمزور اور ذلیل بنا کر رکھا گیا ہے اور انہیں سردار بنائیں اور انہی کو (بادشاہت کا) وارث ٹھہرائیں، نیز ہم زمین میں ان کو اقتدر عطا کریں۔‘‘