قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
آپ کہیئے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم لوگ روگردانی کرو گے تو رسول پر تبلیغ کرنی لازم ہے جس کی ذمہ داری ان کے سر ڈالی گئی ہے، اور تم پر اسے قبول کرنا لازم ہے جس کی ذمہ داری تمہارے سر ہے، اور اگر تم لوگ ان کی اطاعت کرو گے تو راہ راست پر آجاؤ گے، اور رسول کی ذمہ داری تو صرف پیغام کو واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔
رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ کا وظیفہ یہ ہے کہ آپ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اس لیے فرمایا : ﴿ قُلْ أَطِيعُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﴾ ” کہہ دیجیے ! اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔“ اگر وہ اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں تو یہ ان کی سعادت ہے۔ ﴿ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ ﴾ ” پس اگر تم نے رو گردانی کی، تو اس ( پیغمبر) پر وہ ( ذمے داری) ہے جو اس پر ڈالی گئی۔“ یعنی رسالت کی ذمے داری، جو اس نے ادا کردی ﴿ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ﴾ ” اور تم پر وہ ہے جو تم پر ڈالی گئی۔“ یعنی اطاعت کی ذمہ داری اور اس بارے میں تمہارا حال ظاہر ہوگیا ہے، تمہاری گمراہی اور تمہارا استحقاق عذاب واضح ہوگیا ہے۔ ﴿ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ﴾ ” اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پالو گے۔“ اپنے قول و فعل میں راہ راست کی۔ اس کی اطاعت کے سوا تم کسی طریقے سے بھی راہ راست نہیں پا سکتے، یہ ناممکن ہی نہیں بلکہ سخت محال بھی ہے۔ ﴿ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴾ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمے تمہیں واضح طور پر پیغام الہی پہنچا دینا ہے، جس میں کسی کے لیے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور پیغام الہٰی کو واضح طور پر پہنچا دیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ ہی تمہارا حساب لے گا اور تمہیں اس کی جزا دے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں اس نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی۔