وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور منافقین نے اللہ کی سخت قسمیں (٣٠) کھائیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ جہاد کے لیے ضرور نکلیں گے، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ قسمیں نہ کھائیں، فرمانبرداری تو خود معلوم ہوجاتی ہے بیشک اللہ تمہارے کارناموں سے خوف واقف ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ ان منافقین کا حال بیان کرتا ہے جو جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہیں نکلے اور پیچھے گھروں میں بیٹھ رہے، نیز ان کا حال بیان کرتا ہے جن کے دلوں میں مرض اور ضعف ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں : ﴿ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ ﴾ ” البتہ اگر آپ انہیں حکم دیں“ تو وہ ضرور نکلیں گے۔“ پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ قُل لَّا تُقْسِمُوا ﴾ ” کہہ دیجیے ! نہ قسمیں کھاؤ۔“ یعنی ہمیں تم سے قسمیں اٹھوانے کی اور تمہارے عذروں کو توضیح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں ہمیں آگاہ فرما دیا ہے اور تمہاری اطاعت گزاری سب کے سامنے ہے، ہم پر مخفی نہیں، ہم تمہاری سستی اور کسی عذر کے بغیر تمہاری کسل مندی کو خوب جانتے ہیں، اس لیے تمہارے عذر پیش کرنے اور قسمیں اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا محتاج تو صرف وہ ہوتا ہے جس کے معاملے میں متعدد احتمالات ہوں اور اس کا حال مشتبہ ہو ایسے شخص کے لیے کبھی کبھی عذر اس کی براءت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ مگر تمہیں عذر کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تمہارے بارے میں تو اس بات کا ڈر اور انتظار ہے کہ کب تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا غضب نازل ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ وہ تمہیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔۔۔ یہ ہے ان کی حقیقت احوال۔