وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
او اگر وہ حق بجانب ہوتے ہیں تو اس کے پاس اطاعت گزار بن کر آجاتے ہیں۔
﴿ وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ ﴾ اور اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو شریعت کے فیصلے کو قبول کرلیتے ہیں ﴿ مُذْعِنِينَ ﴾ ” اس کو مانتے ہوئے۔‘‘ ان کا شریعت کے فیصلے کو قبول کرنا اس بنا پر نہیں کہ یہ شرعی فیصلہ ہے بلکہ وہ اس فیصلے کو اس بنا پر قبول کرتے ہیں کہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے تب وہ اس صورت میں قابل ستائش نہیں ہیں خواہ وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہی کیوں نہ آئیں کیونکہ بندہ درحقیقت وہ ہے جو اپنے محبوب اور ناپسندیدہ امور میں اور اپنی خوشی اور غمی میں حق کی اتباع کرتا ہو اور وہ شخص جو شریعت کی اتباع اس وقت کرتا ہے جب شریعت اس کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور اگر شریعت کا حکم اس کی خواہش کے خلاف ہو تو اسے دور پھینک دیتا ہے، وہ خواہش نفس کو شریعت پر مقدم رکھتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نہیں ہے۔