سورة النور - آیت 43

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ بادلوں کو (ایک دوسرے کی طرف) چلاتا ہے (٢٦) پھر انہیں آپس میں جوڑتا ہے، پھر انہیں تہ بہ تہ بناتا ہے، پھر آپ بارش کو اس کے درمیان سے نکلتا دیکھتے ہیں، اور اللہ آسمان میں موجود اولوں کے پہاڑوں سے اولے برساتا ہے (یا پہاڑ جیسے بادلوں سے اولے برساتا ہے) پس وہ جس پر چاہتا ہے اسے گرا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے، بادل کی بجلی کی چمک اتنی تیز ہوتی ہے کہ جیسے وہ آنکھوں کی روشنی اچک لے جائے گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

کیا تو نے اپنی آنکھوں کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ کیسے ﴿ يُزْجِي سَحَابًا ﴾ ” بادل کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو ہانکتا ہے“ ﴿ ثُمَّ يُؤَلِّفُ ﴾ پھر وہ ان بدلیوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کو پہاڑوں کی مانند گہرا ابر بنا دیتا ہے۔ ﴿ فَتَرَى الْوَدْقَ ﴾ تو ان بادلوں میں سے متفرق قطروں کی صورت میں بارش کو نکلتے ہوئے دیکھتا ہے تاکہ کسی ضرر کے بغیر اس بارش سے فائدہ حاصل ہو۔ پس اس بارش سے بڑے بڑے تالاب بھر جاتے ہیں، دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں، وادیاں بہہ نکلتی ہیں اور روئے زمین پر قسم قسم کی نباتات اگ آتی ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بادل میں سے ژالہ باری بھی کرتا ہے یہ ژالہ باری جہاں ہوتی ہے ہر چیز کو تلف کر کے رکھ دیتی ہے۔ ﴿ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ﴾ پس وہ اپنے حکم کونی و قدری کے تقاضے اور اپنی قابل ستائش حکمت کے مطابق جس پر چاہتا ہے ژالہ باری کردیتا اور جسے چاہتا ہے اس ژالہ باری سے بچا لیتا ہے ﴿ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ ﴾ یعنی اس بادل میں کوندنے والی بجلی اپنی تیز روشنی کی وجہ سے، قریب ہے کہ ﴿ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ ﴾ ” آنکھوں کو لے جائے۔“ وہ ہستی، جس نے ان بادلوں کو اٹھایا اور ان کو اپنے ان بندوں تک پہنچایا جو اس کے محتاج ہیں اور ان کو اس طرح برسایا کہ اس بارش سے فائدہ حاصل ہو اور نقصان نہ ہو۔۔۔ کیا وہ کامل قدرت، اٹل مشیت اور بے پایاں رحمت کی مالک نہیں؟