وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اور اے میرے نبی ! آپ ایمان والی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (١٩) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر رہتا ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگار کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ کے، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائی کے، یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اپنے غلاموں کے، یا گھر میں رہنے والے ان لوگوں کے سوا جو عورت کی خواہش نہیں رکھتے، یا ان بچوں کے سوا جو ابھی عورتوں کی شرمگاہوں سے آگاہ نہیں ہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں، تاکہ ان کی پوشیدہ زینت لوگوں کو معلوم ہوجائے، اور اے مومنو ! تم سب ملکر اللہ کے حضور توبہ کرو، تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو نظریں جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا تو مومنات کو بھی نظر جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا۔ فرمایا : ﴿ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ﴾ ” اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے ! کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔“ یعنی وہ ستر کی جگہوں اور مردوں پر شہوت کی نظر ڈالنے سے اپنی آنکھوں کو بچائے رکھیں ﴿ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ ﴾ اور جماع حرام سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، نیز شرم گاہوں کو چھونے اور ان کی طرف حرام نظر سے ان کی حفاظت کریں۔ ﴿ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ ﴾ ” اور اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کریں“ مثلاً خوبصورت لباس، زیورات اور تمام بدن زینت میں شمار ہوتے ہیں۔ چونکہ ظاہری لباس جس کو عادت کے مطابق پہنا جاتا ہے، کی نمائش کو نہیں روکا جاسکتا اس لیے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ﴾ ” مگر جو اس زینت سے ظاہر ہو۔“ یعنی وہ ظاہری لباس، جو عام طور پر پہنا جاتا ہے، اس لباس میں ایسی کوئی چیز نہ ہو جو فتنہ کو دعوت دیتی ہو۔ ﴿ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ﴾ ” اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔“ اور یہ حکم کامل ستر پوشی کے لیے ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہ زینت جس کی نمائش حرام ہے اس میں تمام بدن داخل ہے جیسا کہ ہم اس کا ذکر کرچکے ہیں، پھر زیب و زینت کی نمائش سے مکرر منع کرتے ہوئے اس میں سے ان لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا : ﴿ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ﴾ یعنی اپنے شوہروں کے سامنے زینت کا اظہار جائز ہے۔ ﴿ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ ﴾ ” یا ان کے اپنے باپ دادا یا ان کے شوہروں کے باپ دادا کے سوا“ یعنی اس استثناء میں باپ دادا اوپر تک شامل ہیں۔ ﴿ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ ﴾ اور اس میں اپنے بیٹے، اپنے خاوندوں کے بیٹے اور پوتے اور پر پوتے بھی، نیچے تک شامل ہیں۔ ﴿ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ ﴾ ” یا بھائی یا بھتیجے“ خواہ وہ حقیقی (عینی)علاتی ( باپ شریک) یا اخیا فی ( ماں شریک) بھائی ہوں۔ ﴿ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ﴾ ’’یا بھانجے یا ان کی عورتیں۔“ یعنی مسلمان عورتوں کے لیے ایک دوسری پر نظر ڈالنا مطلقاً جائز ہے۔ اس میں اس امر کا احتمال بھی ہے کہ اضافت جنسیت کی مقتضی ہو، یعنی اپنی ” عورتوں“ سے مراد مسلمان عورتیں ہیں جو تمہاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں تب اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے جن کا موقف ہے کہ مسلمان عورت کی طرف ذمی عورت کا دیکھنا جائز نہیں۔ ﴿ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ﴾ ” یا جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے۔“ یعنی اس غلام کے لیے جو گھر میں صرف خواتین کی خدمت کے لیے مامور ہے، اپنی ملک کو اس وقت تک دیکھنا جائز ہے جب تک کہ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہے جب ملکیت مکمل طور پر یا جزوی طور پر زائل ہوجائے تو مالکہ پر نظر ڈالنا جائز نہیں۔ ﴿ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ﴾ یعنی وہ مرد جو تمہارے زیر دست ہیں اور تمہارے ساتھ ان کا تعلق ہے جو کسی قسم کی شہوانی اغراض نہ رکھتے ہوں، مثلاً العقل لوگ، جو شہوانی شعور نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن میں عورتوں کے پاس جانے کی خواہش باقی نہ رہے، ان کی شرمگاہ میں شہوت ہو نہ ان کے دل میں خواہش۔ ایسے شخص کے لیے نظر ڈالنا جائز ہے۔ ﴿ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ﴾ یعنی وہ بچے جو اس قسم کی تمیز نہیں رکھتے ان کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنا جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ علت بیان کی ہے کہ وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ان میں شہوت پائی جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایسے بچوں سے پردہ کرنا فرض ہے جو سن تمیز کو پہنچ چکے ہوں کیونکہ اب وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں۔ ﴿ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ﴾ یعنی وہ زمین پر پاؤں مار کر نہ چلیں تاکہ ان کے پہنے ہوئے زیورات مثلاً پازیب وغیرہ کی آواز نہ آئے اور اس سبب سے اس کی زینت ظاہر نہ ہو جو فتنے کا وسیلہ بن سکے۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے ” سد ذرائع“ کے فقہی قاعدے کا استنباط کیا جاتا ہے، یعنی کوئی امر، اگرچہ وہ فی نفسہ مباح ہے مگر اس پر عمل کرنے سے کسی حرام امر کا ارتکاب ہوتا ہے یا اس کا خدشہ ہے، تو سد ذریعہ کے طور پر یہ مباح امر ممنوع ہوجائے گا۔۔۔ زمین پر پاؤں مارنا فی نفسہ مباح ہے لیکن چونکہ یہ اظہار زینت کا ذریعہ ہے، اس لیے پاؤں مار کر چلنے سے روک دیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین احکام کا حکم دیا ہے اور بہترین و صیتیں عنایت فرمائی ہیں۔ ان پر عمل کرنے میں بندہ مومن سے کوتاہی واقع ہونا ایک لابدی امر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَتُوبُوا إِلَى اللّٰـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور تمام مومنو ! اللہ کے ہاں توبہ کرو“ یہ حکم دینے کے بعد فلاح کو اس پر معلق رکھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾” تاکہ تم کامیابی حاصل کرو“ اور توبہ کیا ہے ؟ ان کا موں کو ظاہری اور باطنی طور پر ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، ان امور کی طرف لوٹنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن توبہ کا محتاج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو خطاب فرمایا ہے، نیز اس آیت میں خالص توبہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ ﴿ وَتُوبُوا إِلَى اللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ آفات دنیا، ریاء اور شہرت وغیرہ جیسے فاسد مقاصد سے محفوظ ہو۔