وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب حیثیت (١٣) ہیں، وہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھا لیں، بلکہ معاف کردیں اور درگزر کردیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
﴿ وَلَا يَأْتَلِ ﴾ یعنی قسم نہ اٹھائیں ﴿ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ﴾ ” جو تم میں سے بزرگی اور کشادگی والے ہیں، رشتے داروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔“ واقعہ افک میں ملوث ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ بھی شامل تھے جو ابوبکر صدیق کے رشتہ دار تھے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والے اور انتہائی نادار تھے۔ مسطح بن اثاثہ کی بہتان طرازی کی وجہ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے ( جو کہ اس سے وہ کیا کرتے تھے)اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قسم سے روکا جو انفاق فی سبیل اللہ کے منقطع کرنے کو متضمن تھی اور انہیں عفو اور درگزر کرنے کی ترغیب دی اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان تقصیر کاروں کو بخش دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ پس فرمایا : ﴿ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَكُمْ وَاللّٰـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ عفو اور درگزر کا معاملہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو اور درگزر کا معاملہ کرے گا۔ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ سنی تو انہوں نے کہا :” کیوں نہیں اللہ کی قسم ! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔“ چنانچہ انہوں نے دوبارہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی مالی مدد شروع کردی۔ [صحیح البخاری،التفسیر،باب ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ﴾، ح:4757 وصحیح مسلم،التوبة ،باب فی حدیث الافک۔۔۔،ح:277] یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور بندے کی معصیت کی بنا پر یہ مالی مدد ترک نہیں کرنی چاہیے، نیز جرم کا ارتکاب کرنے والے سے خواہ کتنا ہی بڑا جرم سر زد کیوں نہ ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے عفو اور درگزر کی ترغیب دی ہے۔