سورة المؤمنون - آیت 98

وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور میرے رب ! میں تیرے ذریعے اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (شیاطین) میرے قریب پھٹکیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس شیطان کی بدسلوکی کے مقابلے میں بندہ مومن کا وظیفہ وہ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ نمائی فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ ﴾ یعنی میں اپنی قدرت وقوت سے برأت کا اظہار کر کے تیری قدرت و قوت کی پناہ پکڑتا ہوں۔ ﴿ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ ﴾ یعنی میں اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو ان شیاطین سے ملنے جلنے کی وجہ سے مجھے لاحق ہوسکتا ہے، نیز میں ان کی وسوسہ اندازی اور ایذا رسانی سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اور میں اس شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو ان کی موجودگی اور ان کی وسوسہ اندازی کے باعث مجھے لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ استعاذہ ہر قسم کے شر اور اس کی اصل سے پناہ طلبی ہے اس میں شیطان کی دراندازی، اس کا وسوسہ اور اس کی ایذا رسانی وغیرہ سب داخل ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول کر کے اسے شیطان کے شر سے پناہ دے دیتا ہے تو بندہ ہر شر سے محفوظ و مصؤن ہوجاتا ہے اور اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا ہوجاتی ہے۔