سورة المؤمنون - آیت 96

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے پیغمبر ! آپ برائی کے بدلے میں وہ کیجیے جو سب سے اچھا ہو (٣٠) کفار آپ کے بارے میں جو کچھ کہا کرتے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ ان مکارم اخلاق میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ﴾ ” دور کریں برائی کو اس طریقے سے جو احسن ہو۔“ یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن قول و فعل کے ذریعے سے آپ کے ساتھ برائی سے پیش آئیں تو آپ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئیں، ہرچند کہ برائی کا بدلہ اسی قسم کی برائی سے دینا جائز ہے مگر آپ ان کے برے سلوک کے بدلے میں، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے برا سلوک کرنے والے پر احسان ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ حال اور مستقبل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے برائی میں تخفیف ہوگی۔ آپ کا یہ حسن سلوک آپ کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے کو حق کی طرف لانے میں زیادہ ممد ثابت ہوگا۔ آپ کا حسن سلوک برائی سے پیش آنے والے کو ندامت، تاسف اور توبہ کے ذریعے سے بدسلوکی سے رجوع کرنے کے زیادہ قریب لے آئے گا۔ معاف کرنے والے کو احسان کی صفت سے متصف ہونا چاہیے، اس سے وہ اپنے دشمن شیطان پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور رب کریم کی طرف سے ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ )الشوریٰ :42؍42)” جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ دْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (حمٓ السجدۃ:41؍34۔35)” آپ برائی کو ایسی نیکی کے ذریعے سے روکئے جو بہترین ہو تب آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص، جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے، آپ کا جگری دوست بن جائے گا اور یہ صفت نصیب نہیں ہوتی ( یعنی خلق جمیل کی توفیق) مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اس صفت سے بہرہ مند نہیں ہوتے مگر وہ لوگ جو بہت بڑے نصیب کے مالک ہیں۔ “ ﴿ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴾ ” ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ان باتوں کو جو کفر اور تکذیب حق کو متضمن ہیں ہمارے علم نے ان کی باتوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ان کے بارے میں حلم سے کام لیا، ہم نے ان کو مہلت دی اور ہم نے ان کے بارے میں صبر کیا ہے۔ حق ہمارے لیے ہے اور ان کی تکذیب بھی ہماری طرف لوٹتی ہے۔ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپ ان کی اذیت ناک باتوں پر صبر کریں اور ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں انسانوں کی طرف سے برے سلوک کے مقابلے میں بندہ مومن کا یہی وظیفہ ہے۔ رہی شیاطین کی بدسلوکی تو ان کے ساتھ حسن سلوک کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ شیاطین تو اپنے گروہ کے لوگوں کو دعوت دیتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جہنم میں جھونکے جانے والوں میں شال ہوجائیں۔