سورة المؤمنون - آیت 77

حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے سامنے سخت عذاب والا ایک دروازہ کھول دیا تو اس کی وجہ سے وہ ناامیدیوں میں گھر گئے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

مگر ان کے پیچھے ایک ایسا عذاب ہے جسے روکا نہیں جاسکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ ”یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا۔“ جیسے بدر کے روز ان کا قتل کیا جانا ﴿ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴾ تب وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجاتے ہیں ان کے پاس شر اور اس کے اسباب پہنچ چکے ہیں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب نازل ہونے سے پہلے پہلے اپنا بچاؤ کرلیں ایسا عذاب جسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس کے برعکس عام عذاب بسا اوقات وہ ان سے روک لیا جاتا ہے جیسے دنیاوی سزائیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تادیب کرتا ہے۔ اس قسم کی سزاؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ (الروم : 30؍41)” خشکی اور سمندروں میں لوگوں کی کرتوتوں کی وجہ سے فساد برپا ہوگیا تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔‘‘