أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اے میرے نبی ! کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں، پس آپ کے رب کی اجرت آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور وہ بہت ہی اچھا روزی دینے والا ہے۔
﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا ﴾ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ان کو آپ کی اتباع سے اس چیز نے روکا ہے کہ آپ ان سے اس کام پر کوئی اجرت طلب کرتے ہیں؟ ﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴾ (الطور:52؍40) ” کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے“ اور اس طرح آپ کی اطاعت سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اجرت اور خراج طلب کرتے ہیں؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ ﴿ فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴾ ” آپ کے رب کی اجرت بہت بہتر ہے اور وہ بہترین روزی رساں ہے۔“ یہ اسی طرح کا قول ہے جس طرح انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ﴾ (ھود :11؍51)” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ ﴾ (ھود :11؍29) ” میرا صلہ تو اللہ کے پاس ہے۔“ یعنی انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف سے لوگوں کو دعوت دینے میں یہ لالچ نہیں ہوتا کہ انہیں لوگوں کی طرف سے مال و دولت حاصل ہوگا۔ وہ تو صرف خیر خواہی اور ان کے اپنے فائدے کی خاطر ان کو دعوت دیتے ہیں بلکہ انبیاء و مرسلین مخلوق کے لیے، خود ان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کی امتوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے اور تمام احوال میں ہمیں بھی ان کی اقتداء سے بہرہ مند کرے۔