سورة الحج - آیت 67

لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم نے ہر گروہ کے لیے ایک شریعت (٣٤) مقرر کردی تھی جس کی وہ اتباع کرتے تھے، پس ان (یہود و نصاری اور مشرکین) کو آپ سے دین کے معاملے میں جھگڑنا نہیں چاہیے، اور آپ انہیں اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے، آپ یقینا سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لئے ﴿ مَنسَكًا ﴾ ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ (المائدة:5؍48) ” ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمہیں دیئے ہیں وہ ان میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ “ ﴿ هُمْ نَاسِكُوهُ ﴾ یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں، اس لئے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں، خاص طور پر ان پڑھوں کے لئے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہوگئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا : ﴿ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ﴾ یعنی آپ کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپ سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھا لیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے“ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لئے کہتے ہیں : ” تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے“ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لئے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لئے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے : ”آپ کیساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہوسکتی ہے“ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” یقیناً آپ سیدھے راستے پر ہیں“ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپ اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپ کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور انکی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپ کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰـهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ ﴾ (النمل : 27؍79) ” اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے، بے شک آپ واضح حق پر ہیں۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔