ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
مذکور بالا باتیں لائق اہمیت ہیں اور جو شخص اتنی تکلیف (٣١) پہنائے جتنی اسے پہنچائی گئی تھی پھر دوبارہ اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا، بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔
جس شخص کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا ارتکاب کیا گیا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس ظالم کا مقابلہ ویسی ہی زیادتی کے ساتھ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ اور کوئی ملامت نہیں۔ پس اگر اس کے بعد بھی وہ اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس ظالم کی مدد کرے گا کیونکہ وہ اب مظلوم ہے، اس بنا پر اس کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا جائز نہیں کیوں کہ اس نے اپنا حق وصول کرلیا ہے پس جب دوسرے سے اس کی برائی کا بدلہ لینے والا شخص اپنا بدلہ لینے کے بعد زیادتی کرے تو اس کے بعد اس پر پھر ظلم کیا جائے، اللہ تعالیٰ اس دوسرے کی)جواب مظلوم ہے( مدد فرماتا ہے اور وہ مظلوم جو سرے سے بدلہ ہی نہ لے، تو اس کے لئے تو اللہ کی مدد بہت زیادہ قریب ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ﴾ ” بلاشبہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔“ یعنی وہ گناہ گاروں کو معاف کردیتا ہے۔ ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، وہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان گناہوں کو دور کر کے ان کے آثار بھی مٹا دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی، دائمی اور وصف لازم ہے اور ہر وقت اپنے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ عفو اور مغفرت کا معاملہ ہوتا ہے، اس لئے اے وہ مظلوم لوگو ! جن کے خلاف جرم کیا گیا ہے، تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم معاف کردو، درگزر سے کام لو اور بخش دو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ وہی معاملہ کرے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ )الشوریٰ: 42 ؍40 ( ” جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ہاں واجب ٹھہرا۔ “