وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور تاکہ وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے جان لیں کہ قرآن آپ کے رب کی برحق کتاب ہے، پس اس پر ایمان لے آئیں، پھر ان کے دل اس کے لیے عاجزی اختیار کریں، اور بیشک اللہ ایمان والوں کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
رہا تیسرا گروہ تو یہ شیطانی القاء ان کے حق میں رحمت بن جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو علم سے نواز رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں۔ پس وہ دونوں امور میں تفریق کرتے ہیں، ایک حق مستقر ہے، جس کو اللہ محکم کرتا ہے اور دوسرا عارضی طور پر طاری ہونے والا باطل ہے، جس کو اللہ تعالیٰ زائل کردیتا ہے، وہ حق و باطل کے شواہد اور علامات کے ذریعے سے ان میں تفریق کرتے ہیں۔۔۔تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے۔ وہ آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اچھے اور برے نفوس میں چھپے ہوئے خیالات کو ظاہر کر دے۔ ﴿ فَيُؤْمِنُوا بِهِ ﴾ تاکہ وہ اس سبب سے اس پر ایمان لائیں، اور معارضات و شبہات کے دور ہونے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﴿فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ﴾ اور اس کے سامنے ان کے دل جھک جائیں اور اس کی حکمت کو تسلیم کرلیں اور یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ اللہ ان کو ان کے ایمان کے سبب سے راہ راست پر گامزن کرتا ہے، یعنی حق کے علم اور اس کے تقاضوں پر عمل کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ قول ثابت کے ذریعے سے اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔۔۔ اور یہ نوع، بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ثابت قدمی ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گزشتہ انبیاء و مرسلین کا طریقہ ایک نمونہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ” النجم“ تلاوت فرمائی تو جب آپ اس مقام پر پہنچے ﴿ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ﴾ (النجم : 53؍20، 19) ” بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور تیسرے منات کو بھی (بھلا یہ بت معبود ہوسکتے ہیں؟“ تو شیطان نے آپ کی تلاوت کے درمیان یہ الفاظ القاء کردیئے۔(( تِلْکَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلٰی، وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی )) ” یہ خوبصورت اور بلند مرتبہ دیویاں ہیں جن کی سفارش کی توقع کی جاسکتی ہے۔“ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حزن و غم کا سامنا کرنا پڑا اور لوگ فتنہ میں مبتلا ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ [حدیث غرانیق موضوع اور باطل ہے۔محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ”نصب المجانیق لنسف قصة الغرانیق“ میں سندا ور متن دونوں اعتبارسے حدیث غرانیق کا بطلان واضح کیاہے۔اوراس سے قبل شیخ محمد عبدہ نےبھی اس کےموضوع ہونےکی وضاحت کی ہے۔ (ازمحقق) ]