سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار آپ سے عذاب کا جلد مطالبہ (٢٧) کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا اور بیشک آپ کے رب کے نزدیک ایک دن، ان دونوں کے ہزار سال کے مانند ہے جنہیں تم گنتے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

عذاب کی تکذیب کرنے والے، اپنی جہالت، ظلم، عناد، اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرتے ہوئے آپ سے جلدی عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عذاب کا جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور واقع ہو کر رہے گا کوئی روکنے والا اس کو روک نہیں سکتا۔ رہا اس عذاب کا جلدی آنا، تو اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپ کے اختیار میں نہیں ان کے جلدی مچانے اور ہمیں عاجز گرداننے پر، آپ کو ہلکانہ سمجھیں، قیامت کا دن ان کے سامنے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ تمام اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی اور ان کو درد ناک عذاب میں ڈالا جائے گا، اس لئے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ﴾ یعنی قیامت کا دن اپنی طوالت، اپنی شدت اور اپنی ہولناکی کی وجہ سے ہزار برس کا لگے گا۔۔۔ لہٰذا خواہ ان پر دنیا کا عذاب نازل ہوجائے یا آخرت تک عذاب کو موخر کردیا جائے یہ دن تو بہر طور ان پر آکر رہے گا۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلم والاہے، پس اگر وہ عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو (انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہے۔ پس یہ مدت خواہ تم اس کو کتنا ہی لمبا کیوں نہ سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کتنا ہی دور کیوں نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ بہت طویل مدتوں تک مہلت عطا کرتا رہتا ہے مگر حساب لئے بغیر، بے فائدہ نہیں چھوڑتا حتیٰ کہ جب وہ ظالموں کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتا ہے، تو پھر ان کو چھوڑتا نہیں۔