سورة الحج - آیت 25

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک جن لوگوں نے کفر کی راہ (١٤) اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں سکونت پذیر اور باہر سے آنے والا دونوں برابر ہیں، اور جو کوئی اس میں اللہ کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے شرک و بدعت کی راہ اختیار کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی برائی کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، لوگوں کو ایمان لانے سے منع کیا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکا، جو ان کی ملکیت ہے نہ ان کے باپ دادا کی۔ بلکہ مسجد حرام مقیم اور دور سے زیارت کے لئے آنے والوں کے لئے برابر ہے۔ بلکہ انہوں نے مخلوق میں افضل ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کو بھی مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا، حالانکہ مسجد حرام کا احترام، حرمت اور عظمت یہ ہے کہ جو کوئی اس مسجد میں الحاد اور ظلم کا ارادہ کرتا ہے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھاتے ہیں۔ پس حرم میں مجرد ظلم اور الحاد کا ارادہ ہی عذاب کا موجب ہے، حالانکہ دیگر گناہوں میں بندے کو صرف اس وقت سزا ملتی ہے جب وہ اپنے ارادہ گناہ پر عمل کرتا ہے۔ تو اس شخص کا کیا حال ہوگا جو مسجد میں سب سے بڑے گناہ یعنی کفر اور شرک کا ارتکاب کرتا ہے، لوگوں کو اللہ کے راستے سے اور زیارت کا ارادہ رکھنے والوں کو مسجد حرام سے روکتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیا سلوک کریگا؟ اس آیت کریمہ میں حرم کے احترام اور اس کی شدت تعظیم کے وجوب کا اور اس کے اندر ارادہ معصیت اور اس کے ارتکاب سے بچنے کی تاکید کا اثبات ہے۔