اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ کے علاوہ (348) کوئی معبود (349) نہیں، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور تمام کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اسی کی ملکیت (350) ہے، کون ہے جو اس کی جناب میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کے لیے شفاعت (351) کرے، وہ تمام وہ کچھ جانتا ہے (352) جو لوگوں کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے، اور لوگ اس کے علم (353) میں سے کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کرتے ہیں، سوائے اتنی مقدار کے جتنی وہ چاہتا ہے، اس کی کرسی (354) کی وسعت آسمانوں اور زمین کو شامل ہے، اور ان کی حفاظت (355) اس پر بھاری نہیں، وہی بلندی اور عظمت والا ہے
یہ آیت قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور یہ سب سے افضل آیت ہے جس میں عظیم مسائل اور اللہ کی صفات کریمہ بیان ہوئی ہیں اس لئے بہت سی احادیث میں اس کی تلاوت کی ترغیب وارد ہے کہ اسے صبح شام، سوتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾” اللہ ہی معبود برحق ہے۔“ لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور اطاعت اسی کے لئے ہونی چاہئے کیونکہ وہ تمام صفات سے متصف اور عظیم نعمتیں دینے والا ہے۔ بندے کا یہ حق ہے کہ اپنے رب کا بندہ بن کر رہے، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا رہے، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچتا رہے۔ اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے، پس اس کے سوا ہر ایک کی عبادت باطل ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق اور ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کسی عبادت کا حق نہیں رکھتی۔﴿ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾” وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“ ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو، یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔ (الحی) سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا اور قدرت رکھنا وغیرہ (القیوم) سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں۔ اس لئے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس کی حیات اور قیومیت کے تمام ہونے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ﴿ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾” اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔“ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں۔“ وہ مالک ہے، باقی سب مملوک ہیں۔ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے باقی سب مخلوق، مرزوق اور مدبر۔ کسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کے معاملات میں سے، نہ اپنے لیے ذرہ بھر اختیار ہے نہ دوسروں کے لئے۔ اسی لئے فرمایا ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾” کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟“ یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ تو شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن وہ جب کسی بندے پر رحم کرنا چاہے گا، تو اپنے جس بندے کی عزت افزائی کرنا چاہے گا، اسے اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا۔ اجازت ملنے سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا ﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ” وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔“ یعنی ان کے گزشتہ اور آئندہ معاملات سے باخبر ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات کی تمام تفصیلات جانتا ہے یعنی اگلے پچھلے، ظاہر، پوشیدہ، غیب اور حاضر سب جانتا ہے۔ بندوں کو ان میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ وہ ذرہ برابر معلومات رکھتے ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ خود بتا دے۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾” اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی کی وسعت نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے۔“ اس سے اس کی عظمت کا کمال اور سلطنت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ جب کرسی کی یہ شان ہے کہ آسمان و زمین کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت بڑی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی سب سے بڑی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی اس سے بڑی مخلوق بھی موجود ہے۔ یعنی عرش اور ایسی مخلوقات جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ان مخلوقات کی عظمت کا تصور کرنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں تو ان کے خالق کی عظمت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے انہیں وجود بخشا اور ان میں بے شمار حکمتیں اور اسرار رکھ دیے۔ جس نے زمین و آسمان کو اپنی جگہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے اور وہ اس سے تھکتا نہیں۔ اس لئے فرمایا ﴿وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا﴾ ” اور نہ وہ ان دونوں کی حفاظت سے تھکتا ہے۔“ یعنی اس کے لئے ان کی حفاظت دشوار نہیں ﴿وَهُوَ﴾ ” اور وہ“ اپنی ذات کے لحاظ سے ﴿ا الْعَلِيُّ﴾ ” بہت بلند ہے۔“ اور عرش عظیم پر مستوی ہے۔ وہ اس لئے بھی بلند ہے کہ تمام مخلوقات اس کے زیرنگیں ہیں۔ اس لئے بھی بلند شان والا ہے کہ اس کی صفات کامل ہیں اور﴿ الْعَظِيمُ﴾” بہت بڑا ہے۔“ جس کی عظمت کے سامنے بڑے سے بڑے جبار، متکبر اور زبردست بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت میں توحید الوہیت بھی ہے، توحید ربوبیت بھی اور توحید اسماء و صفات بھی۔ اس میں اس کی بادشاہت کا محیط ہونا بھی مذکور ہے اور علم کا بھی، اس کی سلطنت کی وسعت بھی ہے اس کا جلال، مجد اور اس کی عظمت و کبریائی کا بھی بیان ہے۔ لہٰذا یہ آیت اکیلی ہی اللہ کے تمام اسماء و صفات اور تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کی جامع ہے۔