سورة الأنبياء - آیت 97

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ کے وعدہ برحق (قیامت) کا وقت قریب آجائے گا اور اس وقت اہل کفر کی نگاہیں پتھرائی ہوئی ہوں گی (اور کہیں گے) اے ہماری بد نصیبی ! ہم تو اس دن سے بالکل ہی غافل تھے بلکہ ہم تو (اپنے حق میں) ظالم تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ﴾ ”اور قریب آ لگے گا برحق وعدہ۔“ یعنی قیامت کا دن، جس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔ پس اس روز گھبراہٹ، خوف اور دہلا دینے والے زلزلوں سے کفار کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کیونکہ انہیں اپنے جرائم اور گناہوں کا علم ہوگا۔ وہ موت کو پکاریں گے اور اپنی کوتاہیوں پر ندامت اور حسرت کا اظہار کریں گے، کہیں گے : ﴿ قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا ﴾ ” ہم اس عظیم دن سے غافل تھے“ پس دنیا کے لہو و لعب میں مستغرق رہے حتیٰ کہ فرشتہ اجل آگیا اور ہم قیامت کی گھاٹی میں اتر گئے۔ اگر کوئی حسرت و ندامت کی وجہ سے مر سکتا تو وہ ضرور مرتے۔ وہ کہیں گے ﴿ بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾ ” بلکہ ہم ہی ظالم تھے۔“ وہ اپنے ظلم اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اعتراف کریں گے۔ اس وقت حکم دیا جائے گا کہ انہیں اور ان کے ان معبودوں کو جہنم میں جھونک دو جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لئے فرمایا :