وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ
اور لوگ آپس میں (دینی اعتبار سے) ٹولیوں میں بٹ گئے اور سب کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔
مناسب یہی تھا کہ اس امر پر سب کا اتفاق اور اجتماع ہوتا اور اس میں تفرق اور تشتت نہ ہوتا مگر ظلم اور زیادتی سے افتراق اور تشتت پیدا ہو کر رہا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ﴾ یعنی انبیائے کرام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے، فرقوں میں تقسیم اور تشتت کا شکار ہوگئے۔ ان میں ہر فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ حق اس کے ساتھ ہے اور دوسرا فرقہ باطل پر ہے۔ ﴿ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴾(الروم : 30 ؍32) ” ہر ایک گروہ ان باتوں پر جو ان کے پاس ہیں خوش ہیں“ اور یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے راہ صواب پر صرف وہی ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے دین قویم اور صراط مستقیم پر گامزن ہے۔۔۔اور یہ حقیقت اس وقت ظاہر ہوگی جب پردہ ہٹ جائے گا اور اصلیت سامنے آجائے گی اور اللہ تعالیٰ فیصلوں کے لئے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا تب اس وقت صاف نظر آئے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون، اس لئے فرمایا : ﴿ كُلٌّ ﴾ تمام فرقوں میں سے ہر فرقہ ﴿ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ ﴾ ہماری ہی طرف لوٹے گا اور ہم اسے پوری پوری جزا دیں گے۔