وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
اور زکریا (٣٠) نے اپنے رب کو پکارا کہ میرے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑ دے اور تو تو سب سے اچھا وارث ہے۔
یعنی ہمارے بندے اور رسول زکریا علیہ السلام کو اس کی تعریف و تعظیم کے ساتھ اور ان مناقب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے یاد کیجئے۔ ان جملہ فضائل میں یہ عظیم منقبت بھی شامل ہے کہ انہوں نے مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوئی۔ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا : ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا ﴾ ” اے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑنا“ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہا : ﴿ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا﴾(مریم : 19؍4۔ 6) ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور پڑگئیں اور سر پر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگیا۔ اے میرے رب ! میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اپنی عنایت سے مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب ! تو اسے ایک پسندیدہ انسان بنا۔ “ ان آیات کریمہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے لئے کوئی آپ کا قائم مقام نہ ہوگا، نیز یہ کہ حضرت زکریا علیہ السلام اس وقت تنہا تھے کوئی ان کا خلف رشید نہ تھا جو دعوت میں ان کی اعانت کرتا۔ ﴿ وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ﴾ یعنی تو باقی رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور بھلائی میں میرے کسی خلف رشید سے بہتر ہے اور تو اپنے بندوں کے ساتھ مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ میرا دل مطمئن اور نفس کو سکون حاصل ہو اور میرے لئے اس کا ثواب جاری رہے۔