فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
تو ہم نے ان کی دعا سن لی اور ان کی بیماری دور کردی اور ہم نے ان کے بال بچے انہیں دے دیئے، اور اپنی جانب سے رحم کرتے ہوئے انہی جیسے اور دیئے، اور تاکہ یہ چیز ہماری عبادت کرنے والوں کے لیے یادگار رہے۔
﴿ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ ﴾ یعنی ہم نے ان کو ان کا مال اور اہل و عیال واپس لوٹا دیئے ﴿ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ﴾ ” اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور۔‘‘ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عافیت، اہل و عیال اور بہت سا مال عطا کیا ﴿ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا ﴾ ” اپنی طرف سے مہربانی کرتے ہوئے۔“ کیونکہ آپ نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ پر راضی رہے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخروی ثواب سے پہلے دنیاوی ثواب سے سرفراز کیا۔ ﴿ وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ ﴾ ہم نے اس واقعہ کو عبادت گزاروں کے لئے عبرت بنا دیا جو صبر سے کام لیتے ہیں۔ اگر لوگ دیکھیں کہ ایوب علیہ السلام کس آزمائش میں مبتلا ہوئے پھر اس مصیبت کے زائل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنے بڑے ثواب سے نوازا تو صبر ہی کو اس کا سبب پائیں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کی ان الفاظ میں مدح فرمائی۔ ﴿ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ﴾ (ص : 38 ؍44) ”ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندہ اور اپنے رب کی طرف بہت ہی رجوع کرنے والا تھا۔“ جب اہل ایمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صبر کرتے ہیں۔