سورة الأنبياء - آیت 61

قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

سب نے کہا تو تم لوگ اسے سب کے سامنے لاؤ تاکہ اسے دیکھیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب ان کے سامنے یہ بات متحقق ہوگئی کہ یہ سب کچھ ابراہیم علیہ السلام نے کیا ہے ﴿قَالُوا فَأْتُوا بِهِ ﴾ تو کہنے لگے ابراہیم(علیہ السلام) کو لے کر آؤ ﴿ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ ﴾ یعنی لوگوں کے سامنے ﴿لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ ﴾ یعنی جس شخص نے ان کے معبودوں کو توڑا ہے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے وقت لوگ موجود ہوں اور یہی بات ابراہیم علیہ السلام چاہتے تھے اور یہی ان کا مقصد تھا کہ لوگوں کے بھرے مجمع میں حق ظاہر ہو لوگ حق کا مشاہدہ کریں اور ان پر حجت قائم ہوجائے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے اس وقت کہا تھا جب اس نے موسیٰ علیہ السلام کو مقابلے کیلئے ایک دن مقرر کرنے کے لئے کہا تھا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ﴿ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴾ (طٰهٰ :20؍59)” تمہارے لیے جشن کا دن مقرر ہوا چاشت کے وقت لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔ “