فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ
پس انہوں نے ان کے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، تاکہ وہ لوگ اس (بت) کے پاس واپس جائیں
چنانچہ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام چپکے سے ان بتوں کے پاس گئے ﴿فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا ﴾ اور ان بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ تمام بت ایک ہی بت خانے میں جمع تھے، اس لئے ان سب کو توڑ دیا۔ ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ﴾ سوائے ان کے بڑے بت کے اور اسے ایک خاص مقصد کے لئے چھوڑ دیا، جسے عنقریب اللہ تعالیٰ بیان فرمائے گا۔ ذرا اس عجیب ” احتراز“ پر غور فرمائیے کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہے۔ اس پر تعظیم کے الفاظ کا اطلاق صحیح نہیں سوائے اس صورت میں کہ تعظیم کی اضافت تعظیم کرنے والوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ جب زمین کے مشرک بادشاہوں کی طرف خط لکھتے تو اس طرح مخاطب فرماتے : (( اِلٰی عَظِيمَ الْفُرْسِ أَوْ إِلٰی عَظِيمِ الرُّوْمِ ))یعنی ” اہل فارس کے بڑے کی طرف یا اہل روم کے بڑے کی طرف“ اور ﴿ إِلَى الْعَظِيمِ ﴾ ” یعنی بڑی ہستی کی طرف“ جیسے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ ﴾ ” ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔“ اور یہ نہیں فرمایا ( كَبِيرًامِّنْ أَصْنَامِهِمْ )” ان کے بتوں میں سے بڑے بت کو“ پس یہ بات اس لائق ہے کہ آدمی اس پر متنبہ رہے اور اس ہستی کی تعظیم سے احتراز کرے جسے اللہ تعالیٰ نے حقیر قرار دیا ہے۔ البتہ اس تعظیم کی اضافت ان لوگوں کی طرف کی جاسکتی ہے جو اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ ﴾ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ان کے اس بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور آپ کی حجت و دلیل سے زچ ہو کر اس حجت کی طرف التفات کریں اور اس سے روگردانی نہ کریں اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : ﴿ فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ ﴾ ” پس انہوں نے اپنے دل میں غور کیا۔ “