سورة الأنبياء - آیت 49

الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے اسے بغیر دیکھے ڈرتے تھے اور جو قیامت کے تصور سے کانپتے تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہاں عطف، ایک ہی چیز اور ایک ہی موصوف پروارد ہونے والی متضاد صفات پر عطف کے باب میں سے ہے۔ ﴿وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی قرآن کریم ﴿ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ﴾ ” مبارک ذکر ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ “پس اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو خود جلیل القدر اوصاف سے موسوم کیا ہے۔ (1) قرآن حکیم ” ذکر“ ہے۔ تمام مطالب میں قرآن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال، اس کے انبیاء و اولیاء کی صفات اور احکام جزا، جنت اور جہنم کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس لئے بھی ” ذکر“ کہا ہے کہ قرآن۔۔۔. اخبار صادقہ کی تصدیق، ان امور کا حکم دینا جو عقلاً حسن ہیں اور ان امور سے روکنا جو عقلاً قبیح ہیں، جیسی صفات کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی عقل و فطرت میں ودیعت کررکھی ہیں ان کی یاددہانی کراتا ہے۔ (2) قرآن کریم کا ” مبارک“ (یعنی بابرکت) ہونا اس میں بھلائی کی کثرت، بھلائی کی نشونما اور اس میں اضافے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی چیز بابرکت نہیں کیونکہ ہر بھلائی، ہر نعمت، دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں ہر اضافہ اسی کے سبب سے ہے اور اس پر عمل کے آثار ہیں۔ جب ” ذکر“ بابرکت ہو تو اس کو قبول کرنا، اس کی اطاعت کرنا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس جلیل القدر نعمت کا شکر ادا ہو، اس کو قائم کیا جا سکے اور اس کے الفاظ و معانی کو سیکھ کر اس سے برکت حاصل کی جائے اور اس رویے سے متضاد رویہ، یعنی اس سے روگردانی کرنا، اسے درخور اعتنا نہ سمجھنا، اس کا انکار کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا سب سے بڑا کفر، شدید ترین جہالت اور سخت ظلم ہے۔